یہ شعر ہیں تخیل کا مزاج
یہ شاعری ہے جذبوں کا گداز
جن کی جستجو ہو نام و نمود
کیسے ہونگے وہ خیال سرفراز
----------------------------
طفلے مکتب ہوئی ہے آرزو
دل ہے چھلکنے کو بیقرار
اب زندگی وبالے جان ہے
دیوار دنیا کے کاروبار
آنکھیں پیاسی ہیں دید کی
تیرے جلووں سے ہونگی اشکبار
ذہن و دل بھی خاموش ہیں
ایک دھڑکن ہے بس انکا انتظار
خیال اب بہلا نہ سکیں گے
ہم فقط ہیں تیرے طلبگار