جانے میری سوچوں کو کون کھا گیا ہے
کئی دنوں سے دل ہاتھوں میں آگیا ہے
کیوں اجڑ رہی ہے دل کی حسین نگری
کوئی مجھ کو مجھ سے دور لے گیا ہے
قسمت بدل رہا ہے ، جیسے اپنا ٹھکانہ
ہاتھ کی لکیریں جو پڑھنا سکھا گیا ہے
میں بھی تو دیکھوں ، صاحبے کمال تجھ کو
تیرے قدموں تلے میرا دل جو آگیا ہے
خوابوں کی جانتی ہوں منزل نہیں ہے کوئی
خیالوں کو میرے رنگ اپنے تو دے گیا ہے
ہوش کر رہا ہے حقیقت کی طرف اشارہ
اپنا بیچارہ دل تو موت اپنی مر گیا ہے
لوگوں کو زمانوں سے بہانوں کی ہے تلاش
ایک ناقصول عقل قدرت کو الزام دے گیا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں