منگل، 28 نومبر، 2023

زندگی خواہشوں کی جنگ ہے .....



زندگی خواہشوں  کی جنگ ہے 

زندگی  معرفت کا ایک رنگ  ہے 

-----------------------

عمر  کی روانی کہ رہی ہے 


آج ہوں میں ، کل نہیں ہوں 


وقت کے غلام نہیں ہیں لمحے 


کبھی یہ دل سے  سرک گئے ہیں 


کبھی بازگشت بن گئے ہیں 


کبھی  آنسوں میں بہ گئے ہیں 


وقت کی مشعل آنکھوں میں  لئے ہم 


تصور کی راحتوں کےامین بن گئے ہیں 


عمر  کے سارے جھگڑے میں بھلا  کر 


تیری آنکھوں کےدایروں  میں  رہ گئے ہم 


آہ ! عشق اور حق کی لطافتوں کے نشے میں 


زمین آسمان کے درمیان رہ گئے ہم 


شوق کی منزلیں آیئں  بھی گیئں بھی 


تیری محفل سے کہیں نہیں گئے ہم 


خواہشوں اور موحبتوں  کی جمع  تفریق کیا ہے


اسی تذبذب  کا شکار ہوتے رہے ہم 


روحوں سے جسموں  کا ناطہ    بڑا  ہی مختصر  ہے 


 یہی   خیال ساتھ لے کر سفر کر رہے ہیں ہم   

منگل، 21 نومبر، 2023

رت ہے رحمتوں کی ....



رت ہے رحمتوں کی 

موسم ہے بخششوں کا 

کوئی لمحہ فیض کا 

بس مل جانے کو ہے 

وہ  سرخ رنگ موسم

پھر سے آنے کو ہے 

پھر رنگ اس کے دل کا 

رنگ لانے کو ہے   

کچھ اور درد  کو 

تو نکھر جانے دے 

پھر اس  گھڑی کو 

تو قریب آنے دے 

ابھی بڑا ہی   مزہ ہے

اس خود فراموشی میں 

لہذا  لہذا  یوں  بکھرتی 

ان بے ترتیب دھڑکنوں میں 

  کوئی مسلسل کہ رہا ہے 

تو سدا  میرا رہا ہے  

کسی زمین، آسمان میں  

میرے یقین، میرے گمان میں 

ایک مبہم خیال بن کر 

مجھ میں چھپا ہوا ہے 

وہیں دوست کا  مرتبہ ہے 

وہی عظمتے  دعا   ہے  

اتوار، 19 نومبر، 2023

یہ دور خواب ہے طلسم ہے.....



لوگ  محبت کر لینگے

دم وفا کا بھر لینگے 

دستور یہی ہے جذبوں کا 

ہر درد گوارا کر لینگے 

کیا کام دل کا دنیا سے 

تیرے دل  پہ گزارا کر لینگے 

یہ عمر  کی کونسی منزل ہے 

اس غم  سے کنارہ کر لینگے 

کبھی ہوش کو تو آواز تو دے 

تیری صدا کو سہارا کر لینگے 

جب ڈھو نڈیگی    تجھ کو نظر 

ہر سو تیرا نظارہ کر لینگے 

یہ دور خواب ہےطلسم ہے 

یہ پل پل ہمارا کر لینگے 

محبوب نہیں کچھ تیرے سوا 

بس محبوب ہمارا کر لینگے 

اپنا اگلا کون سا ہے ٹھکانہ ..........



کہیں ہے رات کا اندھیرا 

کہیں ہے پھیلا ہوا اجالا 

کوئی کہیں دن منا  رہا ہے  

کوئی کہیں شب کو بھلا رہا ہے 


دونوں کی حسرت یہی ہے 


کوئی پیغام ہم کو دے دے 

کوئی پیغام ہم سے لے لے 

کہیں کسی کا وقت ٹہر جائے 

کہیں کسی کا وقت گزر جائے 

ذہن  و دل کی کوفتوں سے 

اپنے دل و دماغ دھو لے 

کہیں کوئی نایاب لفظ ہی کسی کا 

کسی کی  مایوس روح کو چھو  لے 

ایک نرم تازہ ہوا کا جھونکا 

کسی کھلی کھڑکی کو ٹٹولے 

کہیں کوئی جھروکا ، جھری مل ہی جائے 

 تمازتوں کو اسکی  میں سمیٹوں  

ساری ویرانیاں اڈا لوں 

وہی  دوست میرا صدیوں پرانا 

انہی خلاوں  میں پھر سے پا لوں 

کوئی کب سے خود کو  کھوجتا ہے

اپنی دیوانگی میں ڈھونڈتا ہے 

اے  کاش ہم ،ہم نہ ہوتے 

 اور وقت کے یہ ستم نہ ہوتے  

آج بھی وہ نہنی  سی گلہری 

اب بھی پهاڑ کھوجتی ہے 

اپنا اگلا کون سا ہے ٹھکانہ 

اپنی قسمت سے پوچھتی ہے  

اتوار، 12 نومبر، 2023

چند لفظ سماعتوں سے مل کر .....




چند لفظ سماعتوں سے مل کر 

خیال میں  مقید ہوگئے  ہیں 

دھڑکنوں میں گھل گئے ہیں 

لگتا ہے وہی  متاع کل  ہیں

ابدی  حسن زندگی کا وہی ہیں  

ہے انہی لفظوں کی مہربانی 

خلا زندگی کا بھر گئے ہیں 

خوابوں کا حقیقتوں سےناطہ 

وہی لفظ جوڑ  کر گئے ہیں 

عمر  گزری دشت وصحرا کی مانند 

 خوشبو  بن کر  وہیں بکھر گئے ہیں

درون  خانہ  سناٹوں کا ہے عادی 

یہ ان خلوتوں میں اتر  گئے ہیں 

بھلایا تھا جنہوں نے حال ماضی 

جسم و جان میں ٹہر   گئے ہیں 

ان بھٹکتی سانسوں کاآسرا  وہی ہیں 

وہی لفظ خاموشی سے وفا کر گئے ہیں 

دنیا سے دل لگا کر .....




دنیا سے دل لگا کر 

دنیا کا بھید پایا 

خدا سے دل لگاتے 

دو جہاں کا بھید پاتے 

آخر  کہا گیا کیوں 

دنیا ہے ایک کسوٹی 

روز ہی حشر ہے 

میدان ہیں رشتے ناطے 

ایک پل سراب سا ہے 

ایک پل لگے حقیقت 

کوئی خواب سا پل 

 کبھی ہم بھی جی کے آتے 

بعد مدتوں کے صحرا

 قافلوں سے آ ملا ہے  

ہے ایک  رات کی تمنا 

تم چاند بن کے آتے 

جی بھر سب نے لوٹا 

دیوانوں کی دیوانگی کو 

شوقے دشمنان بھی 

سمجھ آیا  ہے  آتے آتے 

کہاں جانتے ہیں نادان 

پشت باخبر ہے 

ہوگا حساب نیتوں کا 


کاش وقت پر جان پاتے 

صدقے دل سے مانگتے گر 

عنایت ضرور ہوتی 

آج تک نہ دیکھا 

واں سے خالی کسی کو جاتے 

بدھ، 8 نومبر، 2023

ہر لمحہ سوچ پہ بھاری ہے.......


ا یک  سکتہ  ہے  کےطاری   ہے 

ہر   لمحہ  سوچ  پہ  بھاری  ہے
-------------------
اے  دل کہاں اسنے سوچا تھا

جو شجر خود اسنے بوے تھے 

 سایوں  کو ایک دن ترساییں  گے 

روز کھلتی ان کونپلوں کے سنگ 

خود کو جوان ہوتے دیکھا تھا 

سرسبز ہوتے خواب دیکھے  تھے  
---------------------------
یہ انداز تمہاری امانت ہیں 

تمہاری تعبیر بن کر  لوٹینگے   

نہ کے خواب تمہارے  لوٹینگے 

دیکھئے یقین پروان  کا صاحب 

کے جانے والے کبھی تو لوٹیںگے  

مانا دستور دل لگانے کا ناقص ہے 

مگر  صاحب  کہاں ہم سے چھو ٹنگے    

ہر صبح کا  یارب یہی ارمان ہے 

ہم سے یہ خواب کبھی نہ ٹو ٹنگے 

جمعرات، 2 نومبر، 2023

یہ شام بڑی مختصر ہے ....




جان لیا ہے جان کیا ہے 

جاتے جاتے جان کہ گئی  ہے 

کسی کو جان کہ نہ سکیں گے  

یہ شام بڑی مختصر  ہے 

اسے جوان نہ کر  سکیں گے   

 عمرکا دھوکہ کھا لیا ہے 

وقت کو رواں نہ کر سکیں گے  

ہجر و وصال  کےلطیف  تذکرے میں 

تیرے  درد  زیاں نہ کر سکیں گے  

دل تیرے ساتھ منجمد ہوگیا ہے 

اسے اورپریشان  نہ کرسکیں گے      

بارش کی یہ بوندیں ....

بارش کی یہ بوندیں جانے کونسا راگ سناتی ہیں یہ چھم چھم کرتا پانی کس کے گھر سے لاتی ہیں یہ شور مچاتے بھیگے پیڑ کہتے ہیں پرانے ساتھی ہیں یہ...