دم وفا کا بھر لینگے
دستور یہی ہے جذبوں کا
ہر درد گوارا کر لینگے
کیا کام دل کا دنیا سے
تیرے دل پہ گزارا کر لینگے
یہ عمر کی کونسی منزل ہے
اس غم سے کنارہ کر لینگے
کبھی ہوش کو تو آواز تو دے
تیری صدا کو سہارا کر لینگے
جب ڈھو نڈیگی تجھ کو نظر
ہر سو تیرا نظارہ کر لینگے
یہ دور خواب ہےطلسم ہے
یہ پل پل ہمارا کر لینگے
محبوب نہیں کچھ تیرے سوا
بس محبوب ہمارا کر لینگے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں