کہیں کسی شہر میں
پھر کسی کے گھر میں
کوئی حسرتوں کا مارا
آج مر گیا ہوگا
دلوں کے بھید سارے
جان لیتے ہیں ستارے
خود اپنی ہی چال سے
کوئی ڈر گیا ہوگا
یہ دو آنکھیں دیکھو
کتنے خواب دیکھتی ہیں
ان سے گزر کر کسی کا
وقت ٹہر گیا ہوگا
کہیں نفس برہنہ ہے
کہیں آرزو سرغنہ ہے
آسان ہے شکار ہونا
شکار کر گیا ہوگا
اسکو مرغوب چاہتیں ہیں
بے بس کی شکایتیں ہیں
اسکا اب بھی وہی ٹھکانہ
وہیں وو پھر گیا ہوگا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں