پیر، 4 مارچ، 2024

چلو پھر کوئی امید کی آمد ہے.....

چلو پھر کوئی امید کی آمد ہے
ہے پھر کسی خیال کی بھر پائی
ابھی وقت ہے،حافظہ ذرا خوش ہو لے
دل کی خواہش ہے کے وہ بھی کچھ بولے
ابھی تک خواب کہتے تھے سنتے تھے
آج ہستی نے راز عجب کھولے
---------------------------------
کوئی سرگوشی چونکا دیتی ہے راتوں کو
نیند میں ضایع نہ کر ملاقاتوں کو
غافل ابھی نہ گنوا امکانی وصل کا تو موقع
یہ شب خوابی دے جائے نہ کوئی دھوکہ
کوئی دھند بیقرار ہے چھٹنے کو کب سے
کوئی نظارہ بیتاب ہے ملنے کو کب سے
یہ دنیا خیالوں میں ہی گزری ہے
یہاں خوابوں کی ہی سبز نگری ہے
در حقیقت ہوش کا حوصلہ بھی کم ہے
وہ ابھی تک خود ہی سے مل کر گم ہے
آہ ، زندگی تجھ سے مل ہی نہ سکے ہیں ہم
ہر آہ پر تجھ سے دور ہوے ہیں ہم
جو رویا کرتا ہے دنیا کی امید پے نادان
زندگی ہی ہزار نعمت ہے ارے انسان
کوئی خود ہے دھوکہ کوئی ہے خود موقع
ہر کسی کوملتا ہے یہاں احساس کا موقع
یاد کا ہر کونہ معتر ہے تیری خوشبو سے
خیال کو بس تو ہی تو ، میسّر ہے
طالب آج بھی بے پرواز اور بے پر ہے
مطلوب ہمیشہ سے دیوانوں کا خوگر ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بارش کی یہ بوندیں ....

بارش کی یہ بوندیں جانے کونسا راگ سناتی ہیں یہ چھم چھم کرتا پانی کس کے گھر سے لاتی ہیں یہ شور مچاتے بھیگے پیڑ کہتے ہیں پرانے ساتھی ہیں یہ...