جمعرات، 7 مارچ، 2024

یہ زندگی ہے بٹی ہوئی ....



یہ زندگی ہے بٹی ہوئی
اسے بانٹنا ہی شعور ہے
وسعتیں اسکی جتنی بڑھیں
اسے مانگنا ہی دستور ہے
محتاط ہیں جو داناے وقت
یہ انکے احوال کا قصور ہے
یہ فراموشی انکی نئی نہیں
کہ آدمی ازل سے کمزور ہے
اشک شکوہ ہیں نہ کر بیان
درد مقبول رب کے حضور ہے
اشارہ کر رہی ہیں نشانیاں
امید کی منزل نہیں دور ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بارش کی یہ بوندیں ....

بارش کی یہ بوندیں جانے کونسا راگ سناتی ہیں یہ چھم چھم کرتا پانی کس کے گھر سے لاتی ہیں یہ شور مچاتے بھیگے پیڑ کہتے ہیں پرانے ساتھی ہیں یہ...