پیر، 13 مئی، 2024

بشر کا احساس پہلا.....

 

وجود انسان کا سدا   مانگتا ہے پناہ 

خدا سے جب کچھ سوجھتے  نہ بنا 

اپنی  محبت  کو ہی بنایا رشتہء جان 

محبت کا دوسرا نام رکھا اسنے ماں 

یوں حاصل جہاں کو  وہ دولت ہوئی  

یوں مامتا  مشہور  ماں کے بدولت ہوئی 

 آغوشے  مادر ہر ذی روح کی  مانگ ہے   

کبھی خدا کی ندا  کبھی طفل کی بانگ ہے 

شفقت رحمت ے دوجہاں،مہک فردوسی لگے 

بہشت  آنکھوں میں اسکی قدمبوسی میں رہے  

عجب لطف دیتی ہیں ماں  کی لوریاں 

باندھ رکھتی ہیں سارے رشتوں کی ڈوریاں 

بشر کا احساس پہلا آنچل کی ہوا 

ماں  کے لمس  موجود تھا خدا 

عمر  دور  وقت کئی  جذبات کی آماجگاہ 

انسان ان میں  ماں کو  ڈھونڈتا رہا 

کہیں راحت ملی نہ اس دل کے سوا 

ایک اس کے دامن میں ملا سکوں بے بہا 

آندھیوں کی خبر  پہلے   ملتی ہے اسے 

طوفانوں میں ورنہ کنارہ ملتا  کسے   

وقت کے ستم ہنس کے سہ لیتی وووہ 

اپنے جسم سے بھی جدا رہ لیتی وہ 

ساتھ چھوڑ  جاتے ہیں جہاں سایے  بھی 

وہیں وا ہیں باہیں ماں کی ابھی 

آج مختار  تم ، کل ماں مختار تھی 

تمہاری زندگی اسکی سانسوں کا دارومدار تھی 

تب  بھی خود سے زیادہ چاہا تمھیں 

حوادسوں سے بچا کر سینچا تمھیں 

زندگی  کا مطلب ملا اسکی آغوش میں

 معرفت کا پہلا درس اسکی آغوش میں 

آج زندگی نے نہ دی فرسٹ تمھیں 

کل تلک تھی ماں کی ضرورت تمھیں 

زمانے سدا  بدلتے رہے حقیقت نہیں  

ماں کی محبت عبادت ہے ضرورت نہیں 

یہ بے سکونی کا دور مانگے شعور 

ماں میں  موجود ہے   خالق کا نور 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آیاں

تیری نظر سے میری نظر تک  حسین احساسات کا سفر ہے ------------------------ تیرے نازک لبوں کی نرمی  تیرے نرم احساس کی گرمی  تیرے رخساروں کی یہ ...