کبھی ایسا بھی ہو ساقی
میں بن جاوں صراحی
میرا کچھ نہ رہے باقی
میرا شوق ہوجاے پروانہ
بنا ڈالے مجھے شمع
پھر کردے مجھ کو دیوانہ
ستم یہ کے ستم در ستم چاہے
دل یہ کیسا کرم چاہے
عجب احساس ہے الفت یہ
ہر لمحہ اپنا بھرم چاہے
میں ہوں اور وہی زندان ہے
اب نہ جسم ہے نہ جان ہے
کہنے کو وہ میرا مہمان ہے
آخر کیا خواہش انسان ہے
یہ اسرار پیارا ہے لیکن
ایک تیرا خیال سہارا ہے لیکن
تیری خاموشی پر گزارا ہے لیکن
تھکی دھڑکن یہ کہتی ہے
یہاں کوئی ندی اب نہ بہتی ہے
وہی جھیل سی آنکھیں ہیں
وہاں اب کوئی اور رہتی ہے
اے باد ۓ وفا سن لے
اس چلمن کو نہ سرکنے دے
نہ اس دیوار کو گرنے دے
اس حسرت کو یوں ہی مرنے دے
یہ وہی ضبط کی کہانی ہے
لب پیاسے اور آنکھوں میں پانی ہے
محبت کی یہ زینت پرانی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں