پھر ایک شب تیری یاد بن کر
سارے لمحے خاروں سے چن کر
ایک ایک گل سے خوشبو چرا کر
کتنے خونیں رنگوں میں نہا کر
ساری سرپھری خواہشوں کو سلا کر
چپکے سے کہتی ہے کانوں میں آ کر
محبت اسے راس آے وفا کر
دیکھ وہ چلتا ہے دامن بچا کر
ریاکار ملتے ہیں پردہ گرا کر
کتنا کہا تھا نہ خود سے ملا کر
خطاکار کے لئے نہ تو خطا کر
آہ روشن ہوا دل سب کچھ جلا کر
آئینے اب نہ مجھ پر یوں ہنسا کر
رب ملا ہے اسے دل میں بسا کر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں