اتوار، 19 نومبر، 2023

اپنا اگلا کون سا ہے ٹھکانہ ..........



کہیں ہے رات کا اندھیرا 

کہیں ہے پھیلا ہوا اجالا 

کوئی کہیں دن منا  رہا ہے  

کوئی کہیں شب کو بھلا رہا ہے 


دونوں کی حسرت یہی ہے 


کوئی پیغام ہم کو دے دے 

کوئی پیغام ہم سے لے لے 

کہیں کسی کا وقت ٹہر جائے 

کہیں کسی کا وقت گزر جائے 

ذہن  و دل کی کوفتوں سے 

اپنے دل و دماغ دھو لے 

کہیں کوئی نایاب لفظ ہی کسی کا 

کسی کی  مایوس روح کو چھو  لے 

ایک نرم تازہ ہوا کا جھونکا 

کسی کھلی کھڑکی کو ٹٹولے 

کہیں کوئی جھروکا ، جھری مل ہی جائے 

 تمازتوں کو اسکی  میں سمیٹوں  

ساری ویرانیاں اڈا لوں 

وہی  دوست میرا صدیوں پرانا 

انہی خلاوں  میں پھر سے پا لوں 

کوئی کب سے خود کو  کھوجتا ہے

اپنی دیوانگی میں ڈھونڈتا ہے 

اے  کاش ہم ،ہم نہ ہوتے 

 اور وقت کے یہ ستم نہ ہوتے  

آج بھی وہ نہنی  سی گلہری 

اب بھی پهاڑ کھوجتی ہے 

اپنا اگلا کون سا ہے ٹھکانہ 

اپنی قسمت سے پوچھتی ہے  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بارش کی یہ بوندیں ....

بارش کی یہ بوندیں جانے کونسا راگ سناتی ہیں یہ چھم چھم کرتا پانی کس کے گھر سے لاتی ہیں یہ شور مچاتے بھیگے پیڑ کہتے ہیں پرانے ساتھی ہیں یہ...