اے رات تجھے پتا ہے
شمع کے ساتھ کیا ہوا ہے
نہیں یہ خواب کی خماری
یہ ہے عمر بھر کی بے قراری
یہ نصیب ہے شمع کا
بے وصل مٹنے کی تیاری
کوئی پروانے سے بھی پوچھے
کیا تیری الفت بھی ہے عیاری
شاطر وقت کا ہے تو نشانہ
کیسے بچے گی کوئی تقدیر کی ماری
تیری روشنی میں بھیگا ہوا حسن ہے
اس پر جان لیوا پروانے کی گلوکاری
سلگ اٹھے شب بھر میں دل کتنے
کوئی جی اٹھا ، کوئی مٹنے کی تیاری
میری ماں جا ابھی خود کو نہ یوں جلا
تو نہیں جانتی پروانہ ہے سرکاری
ایک تو ہی نہیں ہے اس جہاں میں بے بس
بےحسی میں اسکی چھپی ہے خاکساری
مٹ جانا کسی په عام تو نہیں ہے
مثل شمع کسی نے نہ جان اپنی ہاری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں