گر ساز نہیں سوز سے ہمیں بہلائیے
ذرا قریب آئیے اور ہمیں جان جائیے
سن تو لیجئے دل بے قرار کا مدعا
شکایت ہی سہی آج بس مان جائیے
مدّت ہوئی کسی پر اعتبار کئے ہوے
دل چاہے آج کسی پر قربان جائیے
خاموشی سی خاموشی ہے کیوں ہر طرف
بزم عشق میں بن کے مہمان جائیے
شمع حسن کی جلے عشق کی چلے ہوا
پروانے پہ تقدیر بھی مہربان جا ئیے
قلم نے کہا میں تیرا دل لکھ تو لوں
راہ وفا کا شاہد بس میری" جان" جائیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں