مدّت ہوئی مجھے پکارا نہیں کسی نے
مڑ مڑ کے دیکھتی ہیں مایوسیاں میری
دل زار زار کا نقشہ بگڑ رہا ہے
آ کے سمیٹ لے کوئی اداسیاں میری
برف بن گیئں ہیں جذبوں کی ساری ندیاں
ساتھ ہیں وہی بے سر و سامانیاں میری
جو بار بار ٹوٹا وہ دل ہی نہیں رہا
اب اور کیا بڑھینگی پریشانیاں میری
ہمقدم نہ بن سکے جو صدیوں سے ساتھ تھے
ہیں وہی سنسان راستے اور تنہائیاں میری
ہر رشتہ سرد سا اور سانسوں سابے وفا
کیا کیا منظر دکھاینگی نادانیاں میری
انسے خفا ہونے کا حق بھی چھن گیا
چاند، بس میں ہوں اور پشیمنیاں میری
کیا سامان کروں جو بخشش مجھے ملے
یارب آخر ہونگی کب سنوایاں میری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں