وقت پھر لے رہا ہے کروٹ
یا انگڑائی لی ہے زندگی نے
دل نے کی تھی برسوں تمنا
کبھی ہم بھی ہوں زندگی میں
سویے مقدر ہم نے بھی آزماے
ٹھوکر سی ٹھوکر ، لگائی زندگی نے
مان تھی محبت ،تاجدار دل تھے
محبوب تھے ہم سبھی کے ،زندگی میں
چھوٹی سی آرزو تھی زندگی نبھایں
یہی کام ہو نہ پایا زندگی میں
لوگ تھے سدا پتھروں کے شناسا
سدا دل لگا کر سزاپائی زندگی نے
مر ہی جاتے، سن کے انکی زبانی
آپ سا نہیں ہے کوئی زندگی میں
اپنے کرم کو کاش تم آزماتے
سودا بے نقد کیا نہ زندگی میں
انگلیوں کو اپنی گواہ بنا کر
دی کتنوں کی شہادت زندگی میں
یہاں ہر کسی کا طےشدہ ہے مقدر
لمحہ لمحہ آگہی ہے زندگی میں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں