بدھ، 21 اگست، 2024

سچ کہتے تھے پرانے دلوں کے لوگ ...




سچ کہتے تھے پرانے دلوں کے لوگ 
سب کچھ رہیگا، ایک نہ رہیگا تو 
ڈبو یگی  تیری سوچ، تو کیا رہا ہے سوچ 
سب کچھ بچیگا ، ایک  نہ بچ سکےگا تو 
لڑتا ہے زمانے سے کیا، ان کی نہ ہی پوچھ 
سب اپنی کہیں گےلیکن،ایک اپنی کہے نہ سکےگا تو 
کر اپنا پہلے تجزیہ ، اوروں کی نہ کھال نوچ 
ہر سوز ہے الگ، ایک نا سمجھ  رہیگا تو 
زندان ہے زندگی، یوں نہ اسے کھروچ 
ہیں یہ زنجیر خواہشیں ، آزاد ہو نہ سکےگا تو 
تیری ضد  ہے آسمان، مرضی آسمان کی تو پوچھ
یہ مٹی کا سفر ہے، مٹی  میں بھی نہ رہیگا تو   

ان انسانوں کے جنگل میں....


ان انسانوں کے جنگل میں
 نام  ہے ہم  دیوانوں  کا  
ہوش کی باتیں سب کرتے ہیں 
 مگر ساتھ  ہے   پیمانوں کا 
یہ دور حسوں  کو لے ڈوبا  ہے 
یہ شور ہے مئی  خانوں کا 
لاکھ سمجھایا  رب  کی حکمت نے 
مگر حال وہی  ہے اچکتے  شانوں کا 
غافل آگاہ ہے آنے والے کل سے 
عادی ہے  پل دو پل کے لطافت خانوں کا 
یہ دنیا حسن و عشق میں غلطاں ہے 
یہ محض    پیش خیمہ ہے طوفانوں کا 
رب نے کثر  تخیلق میں  کوئی نہ رکھی 
انسان خود  دشمن  ہے اپنی  جانوں  کا 
چند روزہ عیش  پرستی نے حق فراموش کیا 
ورنہ ازل  سے  آدم  باشندہ  تھا  آسمانوں  کا  

شہرے دل


آپ سے باتیں  کرتے ہیں 
وہی  وقت  سہانا  لگتا  ہے 
ایک سیری دل کو حاصل ہوتی ہے 
سارا  عالم   بیگانہ  لگتا  ہے 
جس طرح خدا کو دیکھا نہیں
 ایک احساس جانا مانا لگتا ہے 
ہر باب ان دیکھی ملاقاتوں کا
 شہرے دل کا فسانہ لگتا ہے 
کیا نام دے کوئی ان جذبوں کا 
یہ سانسوں  کا  بہانہ لگتا  ہے 

آیاں

تیری نظر سے میری نظر تک  حسین احساسات کا سفر ہے ------------------------ تیرے نازک لبوں کی نرمی  تیرے نرم احساس کی گرمی  تیرے رخساروں کی یہ ...