ان انسانوں کے جنگل میں
نام ہے ہم دیوانوں کا
ہوش کی باتیں سب کرتے ہیں
مگر ساتھ ہے پیمانوں کا
یہ دور حسوں کو لے ڈوبا ہے
یہ شور ہے مئی خانوں کا
لاکھ سمجھایا رب کی حکمت نے
مگر حال وہی ہے اچکتے شانوں کا
غافل آگاہ ہے آنے والے کل سے
عادی ہے پل دو پل کے لطافت خانوں کا
یہ دنیا حسن و عشق میں غلطاں ہے
یہ محض پیش خیمہ ہے طوفانوں کا
رب نے کثر تخیلق میں کوئی نہ رکھی
انسان خود دشمن ہے اپنی جانوں کا
چند روزہ عیش پرستی نے حق فراموش کیا
ورنہ ازل سے آدم باشندہ تھا آسمانوں کا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں