ہفتہ، 11 جنوری، 2025

آیاں




تیری نظر سے میری نظر تک 
حسین احساسات کا سفر ہے
------------------------
تیرے نازک لبوں کی نرمی 
تیرے نرم احساس کی گرمی 
تیرے رخساروں کی یہ لالی 
تیری نظر نظر متوا لی  
جیسے ہو شہد  کی کوئی   پیالی 
تجھ پر نگاہ جسنے  ڈالی  
 دل  ہر غم   سے ہوا  خالی 
کتنے نالاں تھے فاصلوں  سے
ہم  بھولے  سبھی خوشی سے 
کوئی  گلہ رہا  نہ زندگی سے  
تجھے  پایا ہے  بندگی سے 
تو گواہ اسی کا ہے جان میری 
اس کی پہچان سے ہے شان تیری 
 وجود  سے تیرے   خوشبو اسی کی آے 
تیری ماں میں ہیں اسی کے سایے 
اس کے کرم کی انتہا تو ہے 
تو ہی حاصل  مدعا تو ہے    

کیا باتوں تم کومیں کے حال کیسا ہے......





کیا باتوں تم کومیں کے حال کیسا ہے

اس خوش رنگ موسم میں ملال کیسا ہے

نبض آشنا جانتا ہے حد دھڑکنوں   کی لے

ہر احساس حیران ہے یہ کمال کیسا ہے

رکتی ہوئی  سانسوں کو وہ رکنے نہیں دیتا

اپنی آنکھیں ملتا  ہوا یہ وصال کیسا ہے

دم توڑتی امید کے مقابل یاد ہے اس کی

گر محبت ایمان ہے تو سوال کیسا ہے

طلب کی جستجو گر ضایع کردیگی حاصل کو

پھر خدا بندے کا رشتہ لازوال کیسا ہے

صدا ان خیالوں سے گویا ہے تیری خاموشی

ایک رشتہ ان سنا سا بےمثال کیسا ہے

جمعہ، 10 جنوری، 2025

کبھی ایسا بھی ہو ساقی .............




کبھی ایسا بھی ہو ساقی 

میں بن جاوں  صراحی 

میرا کچھ نہ رہے باقی 

میرا شوق ہوجاے پروانہ 

بنا ڈالے مجھے  شمع 

پھر کردے مجھ کو  دیوانہ 

ستم یہ کے ستم در ستم چاہے

دل یہ کیسا کرم چاہے 

عجب احساس ہے الفت یہ 

ہر لمحہ اپنا بھرم چاہے 

میں ہوں اور وہی زندان ہے 

اب نہ جسم ہے نہ جان ہے 

کہنے کو وہ میرا مہمان ہے 

آخر کیا خواہش  انسان ہے 

یہ اسرار    پیارا ہے لیکن 

ایک تیرا خیال سہارا ہے لیکن 

تیری خاموشی پر گزارا ہے لیکن 

تھکی دھڑکن یہ کہتی ہے 

یہاں کوئی ندی اب نہ بہتی ہے 

 وہی جھیل سی آنکھیں ہیں 

وہاں اب کوئی اور رہتی ہے 

اے  باد ۓ وفا سن لے 

اس چلمن کو نہ سرکنے دے 

نہ اس دیوار کو گرنے دے 

اس حسرت کو یوں ہی مرنے دے 

یہ وہی ضبط کی کہانی ہے 

لب پیاسے اور آنکھوں میں پانی ہے 

محبت کی یہ زینت پرانی ہے  

.....تو ہی تو ہے

 




میرے خیال کو تنفید منظور ہی نہیں

میں مکمل ہوں کیا ہوا خام ہوں ابھی

میرے خیال خود حیران ہیں اپنے نزول پر

میں خاص نہ سہی خیالے عام ہوں ابھی

ہوتے رہینگے تیرے میرے دل سے یہ کشید

میرا خیال ہے میں گام گام ہوں ابھی

دلوں کے بھید پا گئے ہیں خیال ہو کر زبان

یہ تمہارا ہے کرم طشت از بام ہوں ابھی

کھلتے ہیں گل محبتوں کے خار کے ہی سنگ

شاید اسی لئے فاسد گلچیں کا الزام ہوں ابھی

یہ دنیا کے جمگھٹے ہیں خود سے بھی بےخبر

ان کے لئے دنیا کی بھیڑ میں ایک نام ہوں ابھی

یارب تو نے عنصر کائنات کا بنایا ہے آدمی

تو ہی تو ہے، میں بھی میں نہیں،ایک پیام ہوں ابھی

...کاش




کاش زندگی خواب ہی ہوتی

نہ جاگنے کا سوال ہوتا

نہ ہوتی تعبیر کی کوئی حسرت

نہ وصل ہجر کا کوئی ملال ہوتا

جو تھا خمار تھا صحبتوں کا

نہ دل کو ہوش ہوتا نہ یہ حال ہوتا

وہ فرار تھا میری بچینیوں کا

کاش وقت کو نہ کوئی زوال ہوتا

ایک تیری ہمنشینی گراں قدر تھی

تو نہیں تو کہاں کوئی خیال ہوتا

 موج ے بحر  ے  غم کی زد میں

یاد کا ہر لمحہ جاناں وصل ہوتا

منگل، 10 دسمبر، 2024

مجھے چاند چاہیے لا دے ....


اے  چاند ایک جھلک نے تیری 
 دیکھ مجھے طفل  بنا  ڈالا 
ماں نے لاکھ آئینہ  دکھایا مجھ کو 
میں نے آسمان سر پہ  اٹھا ڈالا 
 مجھے چاند چاہیے لا دے
اپنے سارے وعدے  گنوا دے
یوں تو ہر برس  عید  آتی 
پر بنا چاند کے ہوتی 
 جب اوٹ  سے تو نے دیکھا 
ایک تیر سا دل پر پھینکا 
تیری  کمند تھی ایک اشارہ 
میرا دل ہوگیا تارا تارا 
تو نے ہر بار کہا یہ مجھ سے 
ہم نہ مل پاینگے تجھ سے 
پھر    یہ آنکھ مچولی کیسی 
تو جیسا ہے، ہوں میں ویسی
 تو  کئی  خواب دکھا کر سوے 
ہم ایک خواب کی خاطر روے 
تو چاندنی رات کا  وعدہ 
ہمارا  ہر  دن  تیرا  ارادہ 
   ہم راستہ کبھی نہیں  بھولے 
دیکھ کبھی ساتھ ہمارے ہولے 
دیس پردیس لگایں  پہرہ 
ہمارا کام وہی جو  تیرا 
راستہ راستہ روشن ہو جانا 
 تیری طرح کوئی شب   کھو جانا 
ایسا کیا مانگ لیا ہے تجھ سے 
جو جواب مانگے ہے مجھ سے 
یہ داؤ  ،   پیچ کہاں سے لاے  
تیری حکمت بھی نہ اسے کس پاے 
میرے  پیشے نظر بس تو ہے 
تو ہی منزل تو ہی جستجو ہے  

ریزہ ریزہ یہ دل.....





اب یہ کام بھی ہم کر لینگے 
دل دشمن کا نام اپنے کر لینگے 
جنہیں قبول  نہیں ایسا الزام کوئی 
انکے لئے یہ الزام بھی اپنے سر لینگے 
آخر  وفاؤں کا بھی  ہوگا  مول  کوئی 
ان کی جفا یں  نام اپنے کر لینگے
 ان کی الفت تھی  دو دھاری  تلوار سی 
ریزہ ریزہ یہ دل آنکھوں میں  بھر لینگے 
وہ جانتے ہیں موم کو آخر  بہنا ہے 
ہم ایک دن ایک ایک پتھر  پانی کر لینگے 
وہ دور رہیں یا پاس ہیں ہمارے خاص 
وعدہ  ہے ساتھ  ہمارے کر لینگے 
ہم کو پتا ہے نفرت ایک بیماری ہے 
  رب سے ہم درخواست وفا کی کر لینگے 
محبت  درد  کے  ماروں کا ہی تحفہ  ہے 
دونو جہاں کا سودا بس اسی سے  کر لینگے 

آیاں

تیری نظر سے میری نظر تک  حسین احساسات کا سفر ہے ------------------------ تیرے نازک لبوں کی نرمی  تیرے نرم احساس کی گرمی  تیرے رخساروں کی یہ ...