کاش زندگی خواب ہی ہوتی
نہ جاگنے کا سوال ہوتا
نہ ہوتی تعبیر کی کوئی حسرت
نہ وصل ہجر کا کوئی ملال ہوتا
جو تھا خمار تھا صحبتوں کا
نہ دل کو ہوش ہوتا نہ یہ حال ہوتا
وہ فرار تھا میری بچینیوں کا
کاش وقت کو نہ کوئی زوال ہوتا
ایک تیری ہمنشینی گراں قدر تھی
تو نہیں تو کہاں کوئی خیال ہوتا
موج ے بحر ے غم کی زد میں
یاد کا ہر لمحہ جاناں وصل ہوتا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں