اب یہ کام بھی ہم کر لینگے
دل دشمن کا نام اپنے کر لینگے
جنہیں قبول نہیں ایسا الزام کوئی
انکے لئے یہ الزام بھی اپنے سر لینگے
آخر وفاؤں کا بھی ہوگا مول کوئی
ان کی جفا یں نام اپنے کر لینگے
ان کی الفت تھی دو دھاری تلوار سی
ریزہ ریزہ یہ دل آنکھوں میں بھر لینگے
وہ جانتے ہیں موم کو آخر بہنا ہے
ہم ایک دن ایک ایک پتھر پانی کر لینگے
وہ دور رہیں یا پاس ہیں ہمارے خاص
وعدہ ہے ساتھ ہمارے کر لینگے
ہم کو پتا ہے نفرت ایک بیماری ہے
رب سے ہم درخواست وفا کی کر لینگے
محبت درد کے ماروں کا ہی تحفہ ہے
دونو جہاں کا سودا بس اسی سے کر لینگے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں