جمعہ، 10 مئی، 2024

گر محبت خطا ہوتی، خدا نہیں ہوتی ....

 khat



hخط تمہارا آج بھی درد لایا ہے 
بعد مرنے کے خبر بیدرد لایا ہے 
تمہاری خاموشی کا نیا جواز  ایک لے کر 
دلے  شکستہ  اور  آہیں سرد  لایا ہے 
کہو صدمات کا اب حساب کیسے ہو 
چاند ،راتوں کابے کل  ورد لایا ہے 
دیوانگی خود  دوام کی چاہ  کر بیٹھی 
درماں  پھر کوئی نئی  سرحد لایا ہے 
گر محبت خطا  ہوتی، خدا نہیں ہوتی 
مجاز خود حقیقت کے گرد لایا ہے 
وحشت لائی ہے چمن سے صحرا تک 
تجھ تک مسیحا میرا احد لایا ہے 
وصال دائم ایک  انوکھا رنگ مانگے ہے 
ہوش شرط  ٹھری  ہے،عشق جہد  لایا ہے 
خودی سے خود نکل کر جب ملی اس سے 
دیکھا وہی تھا  ازل ،وہی ابد  لایا ہے 
وابستہ رہے جس سے، رستے زخم یہ سارے 
چاند،وہی  درد  میرا  ہمدرد  لایا  ہے  خط 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آیاں

تیری نظر سے میری نظر تک  حسین احساسات کا سفر ہے ------------------------ تیرے نازک لبوں کی نرمی  تیرے نرم احساس کی گرمی  تیرے رخساروں کی یہ ...