khat
hخط تمہارا آج بھی درد لایا ہے
بعد مرنے کے خبر بیدرد لایا ہے
تمہاری خاموشی کا نیا جواز ایک لے کر
دلے شکستہ اور آہیں سرد لایا ہے
کہو صدمات کا اب حساب کیسے ہو
چاند ،راتوں کابے کل ورد لایا ہے
دیوانگی خود دوام کی چاہ کر بیٹھی
درماں پھر کوئی نئی سرحد لایا ہے
گر محبت خطا ہوتی، خدا نہیں ہوتی
مجاز خود حقیقت کے گرد لایا ہے
وحشت لائی ہے چمن سے صحرا تک
تجھ تک مسیحا میرا احد لایا ہے
وصال دائم ایک انوکھا رنگ مانگے ہے
ہوش شرط ٹھری ہے،عشق جہد لایا ہے
خودی سے خود نکل کر جب ملی اس سے
دیکھا وہی تھا ازل ،وہی ابد لایا ہے
وابستہ رہے جس سے، رستے زخم یہ سارے
چاند،وہی درد میرا ہمدرد لایا ہے خط
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں