انہی بہاروں کے سایےمیں
کہیں کوئی دل متوالا
اپنی بے رنگ دنیا کو
آباد کیا کرتا تھا
خواب سی اس جھیل پر اکثر
اپنے خواب بنتا تھا
شاداب شجر کے پہلو سے لگ کر
اسکی سپردگی میں کھو کر اکثر
خود کو بہلایا کرتا تھا
ڈالی ڈالی جھک کر کہتی تھی
دیوانے تیرا کوئی ہو نہ ہو
دسترس میں تیرے میں رہتی ہوں
مجھےچھو کر احساس تیرے سارے
صندلی ہوجاے کرتے تھے
مخملی سبز نظارے کہتے تھے
ہم تیری آنکھوں میں ہی رہتے تھے
تو نے جب دیکھا خواب ہی دیکھا
ایک نظر نواز کی نظر سے مل کر
تیری نظر نے کیا کیا نہیں دیکھا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں