فخر دو جہاں میرے خواجہ کا آستان
شاہ و گدا سے انکو محبت ہے یکسان
رنگ و نسل و مذہب کا فرق مٹ گیا یہاں
در نواز سے جاتے ہیں سب بھر کے جھولیاں
دربار خواجہ ہے عظمت و رحمت و گلستان
یاں دشمن کو بھی ملے ہے مقام دوستاں
گلابوں سے مہکتا اجمیر جنّت کا ہے نشان
خواجہ کی دلنوازی کی سند ہیں عاشقان
رہبر عشق حقیقی ہے جادہ خواجگان
حاصل مراد و سرور ہیں دعا خادمان
قصہ مختصر ہو محبوب کی نظر دل ہو زبان
فقط ایک بےخودی ہے بس دیدار مہربان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں